MY STORY
یہ بات ہے 2005 کی جب میں نے اپنی میچور لائف کا آغاز کیا اور پینٹرز اینڈ آرٹسٹ ایم صفدر عباس لیہ کے نام پر اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا، پاکستان کے شہر لیہ ضلع، صوبہ پنجاب میں اس وقت تک جدید مشینی پرنٹنگ دستیاب نہیں تھیں اور مینول ہاتھ سے تیار کردہ منفرد ڈیزائنز پر مشتمل بینرز اور سائن بورڈز کو متعلقہ جگہوں پر آویزاں کیا جاتا تھا جو کہ ہمارے کلچر کا ایک بہترین ایڈورٹائزمنٹ کا طور طریقہ سمجھا جاتا تھا، پھر پینافلکس کا آغاز ہوا اور اب تک تو سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر مشتمل متعدد وسائل اپنا لوہا منوّاتے نظر آ رہے ہیں، اور دنیا بھر میں بآسانی دستیابی سے منفرد سروسز اور کاروبار متعارف کرانے کے لئے پہلے جتنی محنت کی ضرورت ہی نہیں، اس متعلق سروسز کی فراہمی میں کمی کے باعث اور کمپیٹیشن و دیگر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اور گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ مشورہ کیا کہ کیوں نہ کسی دوسرے ملک میں کوئی نوکری کر لی جائے تاکہ ان حالات کو بہتر بنایا جا سکے، تو ایک دوست جس کا نام قاضی بدر تھا کے سسرال میں ان کی بیوی کے بھائی جن کا نام عبدالعزیز راجپوت تھا، اور وہ دبئی میں بطور ملازم الامداد گروپ دبئی میں جاب کر رہا تھا، سے بدر نے ملاقات کروائی اور کچھ معاملات پر اتفاق ہوا، مختصر یہ کہ کچھ جمع پونجی جس کو خرچ کرتے ہوئے میں دوبئی پہنچ گیا، مگر عین موقع پر مجھے پاکستان میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وزٹ ویزہ پر آنا ہو گا کیونکہ کمپنی انٹرویو کے بعد پرماننٹ ویزہ جاری کر دے گی، اور دبئی کے قانون کے مطابق باقی سب کچھ عمل میں لایا جائے گا، بہرحال میں یقین کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا اور کچھ دن الغوبائبا بس اسٹیشن سے قریب کی بلڈنگ کے ایک روم میں رہائش پذیر رہا اور انٹرویوز کی تیاری میں مصروف ہو گیا، مگر چند روز بعد معلوم ہوا کہ ان کے بس کی بات نہیں، خود ہی کوشش کرنا ہو گی پھر جیسے خالق کی مرضی،،،. مختلف انٹرویوز دیے، کچھ وقت الاجمان میں بطور ویٹر کے گزارا، تو اس ہوٹل پر ایک پٹھان جس کا نام بسم اللہ خان تھا جو کہ پاکستان کے شہر پشاور سے تعلق رکھتا تھا، اس نے مجھے ایک آفر دی کہ بھائی صفدر عباس تم یہاں تک پہنچ آئے ہو اور پکا ویزہ بھی نہیں مل رہا ہے تو میں تمہیں ایک ایسی جگہ کام دلوا دیتا ہوں جہاں ویزہ کی ضرورت ہی نہیں غیر قانونی طور پر مزدوری کرو جب واپس جانا ہو تو پولیس کو گرفتاری دے دینا اس کے بعد تم واپس پاکستان تو چلے جاؤ گے مگر پھر کبھی واپس دبئی میں داخل ہونے سے قاصر رہو گے، مگر تم اتنا کما چکے ہو گے کہ اپنے ملک میں اپنا کاروبار شروع کر سکو، ان کی گفتگو کے بعد میں نے کہا کہ بھائی خان بابا آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے مگر میری فطرت میں اور خون میں نہ کسی کو دھوکہ دینا شامل ہے اور نہ کسی کے دھوکے کو قبول کرنا، کچھ بھی ہو تو اپنا ہو نہیں تو جیسے ہم ہیں ویسے ہی زبردست ہیں،
اسکے بعد میں نے کچھ روز ڈریگن مارٹ دبئی میں بطور سیلز مین کا کام کیا جب تک میرے پاس ویزہ پر قیام کی لمٹ موجود تھی، اس کے بعد ایک کمپنی کی جانب سے ویزہ بھیجنے کی آفر ہوئی جو کہ بعد میں کچھ لوگوں نے جو کہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، پیسے کے لالچ میں میری جانب سے جمع کروائی گئی رقم کو واپس لے کر ویزہ جاری کرنے سے روک دیا گیا، بہرحال میں واپس پاکستان جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پہنچا اور وہاں سے بس کا سفر کرتے ہوئے اپنے شہر لیہ میں واپس آگیا، یہ بات ہے 2012 کی، پھر سے اپنے شعبے میں اپنے کام کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ ڈرائیور کی نوکری بھی کرتا رہا، اپنی منزل کی تلاش میں رہا کہ ایک دن مجھے ایک کتاب کسی مہربان نے پڑھنے کے لیے دی جس کا نام تھا معدن العصمت ص جس کے مصنف مولا و رہبر معظم سرکار السید محمد جعفر الزمان ص ہیں، اس کتاب میں جب میں نے اپنی پہلی تحقیق کا آغاز کیا تو اپنے وجود میں اور سوچ میں متعدد اور لطیف تبدیلیاں محسوس کی جس سے مجھے روحانی سکون میسر آیا اور مزید میں ان پاک و لجپال ہستی کی احسانات کے وزن میں دبتا چلا گیا، اب میری زندگی میں ایک نیا موڑ آچکا تھا اور میری سرچ حق و باطل میں تمیز کرنے سے متعلق تھی، اسی دوران فیس بک پر کچھ مرد اور خواتین کے ایک گروہ نے مجھ سے دوستی کا ڈرامہ پیش کیا اور مختلف اعتبار سے وہ لوگ اپنے ہتھکنڈے آزمانے کی ناکام کوششیں کرتے رہے اور میں بھی خود کو بیوقوف بنا کر اپنی سرچ پر مضبوط رہا، مگر ان لوگوں سے متعلق میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ کیوں یہ لوگ اس ڈرامے میں کام کر رہے ہیں؟
فزیکل طور پر ملاقات کی پیشکش کی گئی تو قدرت نے مجھے ان کے فتنہ سے دور و محفوظ رکھا، مگر یہ لوگ ایسا کیا ہے جس کی تلاش میں مجھے میری صلاحیتوں سمیت استعمال کرنے کے لیے زور لگا رہے ہیں یہ سوچ اب میری سرچ میں شامل ہو چکی تھی اور میں نے ایک رات تحجت کے وقت دعا کرتے ہوئے رب العزت کی ذات کو سائیں جعفر الزمان ص کا واسطہ دے کر عرض کیا کہ مجھے ہرگز لعنتی گروہ سے پرہیز اور اپنی امان میں رکھے آمین، وقت گزرتا گیا کہ ایک دن اتفاق سے میں ایک بزرگ ہستی جو کہ میرے نزدیک ایک قلندر بابا اولیاء اللہ کی حیثیت رکھتا ہے سے ملاقات کے دوران میں نے یہ سب معلومات اور اپنی سوچ و سرچ کو ان سے بیان کیا، تو انہوں نے بس اتنا ہی فرمایا کہ تم میرے ساتھ وقت گزارو اور جب تک مجھے اپنے اس خاکی جسم کے پنجرے سے رہائی نہیں مل جاتی تم میرے ساتھ رہو، چونکہ میرے پاس کافی وقت تھا اور کوئی خاص زمہ داری بھی نہیں تھی اور پھر ایک ایسے انسان کو جس نے اپنی زندگی وقف ہی امام آخر الزمان ص کے لیے کر رکھی تھی تو خود پر لازم سمجھا کہ ان ذات کی نوکری بغیر کسی لالچ کے انجام دی جائے کیونکہ کسی عام شخص کے کام آنا اگر نیکی ہے تو پھر اس ذات کی نوکری تو ایک بہترین عبادت ہے، کون جانے کہ ان کے پاک مرشد کی شان کتنی بلند ترین ہے، درود و سلام ہوں ان پر اور ان کے مرشد پر اور ان کے مرشد کی جد اول صل اللہ علیہ والہ وسلم پر، آمین
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ڈرامہ پارٹی کے کرتب بھی نمایاں ہوتے گئے، لڑکیوں کو ننگے ہو کر مجھے مائل کرنے کی کوششوں کے علاوہ اور بھی کئی ڈرامے پیش کیے گئے مگر میرا مدعا وہ تھا ہی نہیں جو انہوں نے سمجھا یا پھر جو میں نے ان سے کہا، اسی دوران جب ان لوگوں کو معلوم پڑا کہ اب معاملہ ان کے ہاتھ سے آگے بڑھ گیا ہے تو پھر ان لوگوں نے سائنس اور سائیکی کے ماہر لوگوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے غلط فہمیاں پیدا کرنا شروع کر دیں اور ایسی ایسی باتیں نکل کر سامنے آنے لگیں جن کا تعلق حقیقت سے ہرگز نہیں تھا اور اب مجھے یہ دیکھنا تھا کہ کیا ان ڈرامہ نگاروں کا تعلق اس مقام سے منسلک تو نہیں ہے کہ ان کی جانب سے کارکردگی کا مظاہرہ اسی طرف اشارہ کر رہا ہے، میں نے تحقیق جاری رکھی، پھر کچھ یوں ہوا کہ اس بزرگ ذات کی جھوٹی شکایات پر ان کے مرشد کے بھائی سائیں شبیر شاہ (مولا آباد و شاد رکھے آمین) کو آمادہ کروایا کہ وہ صفدر عباس اور اس کے بابا جوگی کو اس گھر سے نکال دیں، اسی سلسلے میں جب میں پیش ہوا تو سائیں شبیر کے انداز گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایسا چاہتے تو نہیں مگر فسادات کی نفی کے لیے ایسا کرنا بھی ضروری سمجھ رہے ہیں تو میں نے آمین کہہ کر ان کی جانب سے ہدایات کو خود پر لازم قرار دیا، اور پھر ہمارا قافلہ جمن شاہ سے دربار کموکامل رح لیہ میں منتقل ہوا، اور اس قلندر بابا اولیاء اللہ نے باقی کچھ وقت ہمارے ساتھ بسر کیا،، مزیدار بات یہ ہے کہ کہ ہم موجودہ دور کے جو بھی بنتے حالات دیکھ رہے ہیں ان سے متعلق بابا جوگی نے ہمیں پہلے سے ہی آگاہ کر دیا تھا اور میری حیرت میں اس وقت اضافہ ہوا جب میں نے وہی سب کچھ ہوتا ہوا دیکھا، اور خوشی اس بات پر ہوئی کہ انہوں نے ان حالات سے نمٹنے کے تمام طور طریقے ہمیں سیکھا دیے تھے جو ہمارے لئے ایک حقیقی اجرت و اجر سے کہیں بہتر اور افضل ہے،
اب میں ایک سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں کہ جن لوگوں کو کسی قلندر بابا اولیاء اللہ سے اتنی تکلیف رہی ہو بھلا وہ لوگ مولا علی فخر موجودات کے لخت جگر امام مولا مھدی عج کی نصرت و محبت کے دعوے دار کیسے ہو سکتے ہیں؟
کیا ہم لوگ جو ماضی میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ اس بات پر لگائیں کہ کیا وہ لوگ بھی ایسے ہی جاہل تھے کہ جن کی وجہ سے آج تک ان لوگوں پر لعنت ہی مسلط کی گئی ہے
کیا کربلا میں کی گئی لعنت کسی یہودی کسی عیسائی کسی ہندو و دیگر پر تھی یا ان کے جیسے مسلمانوں پر جو ایک جانب ظلم کرتے تھے اور دوسری جانب لوگوں کو دھوکہ میں رکھتے تھے، کوئی رشتہ دار بن جاتا اور جھوٹ کو بنیاد بنا کر ناقص عمارت کھڑی کر دیا کرتا تھا اور جس کی وجہ سے آج ظلمت و نفرت کو عروج ملا،؟؟؟؟؟؟
دوستو! خدا کا نا تو کوئی دوست ہوتا ہے نا کوئی دشمن دراصل وہاں صرف مخلص نیت کا ثمر ہی ملتا ہے
میری سرچ جو حق و باطل کی تمیز کرنے سے متعلق تھی تو وہ لوگ جو لعنت کے حقدار ہیں ان پر لعنت بھیج رہا ہوں جن کو میں نے تلاش بھی کیا، آزمایا بھی اور ان کے مقدر میں لعنت بھی ارسال کر دی ہے،
اور ڈھیروں دُعائیں ہر حلالی موّالی، اور ہر مذہب کے ہر اس شخص کے لیے جو کم از کم ظالم نہیں، ہمیشہ مولا ص کی امان میں رہو آمین ثم آمین،